عید الا ضحی کے موقع پر پوری دنیا میں ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق قربانی دیتا ہے۔ قربانی کا مقصد ایک طرف تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اطاعتِ خداوندی میں دی جانے والی قربانی کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے اور دوسری طرف غریب، نادار، مستحق، یتیموں، بیواؤں کو خوشی کا موقع بہم پہنچانا ہے۔قربانی کا گوشت ایسے افراد میں تقسیم کیا جاتا ہے جو زندگی کی مصیبتوں میں گرفتار ہیں اور اپنے بچوں کو مناسب کھانا دینے کے بھی قابل نہیں، عید الا ضحی ہمیں یہ درس بھی دیتی ہے کہ مسلمانوں پر جب کڑا کبھی کڑا وقت آئے، سب یکجان ہو کر صورتِ حال کامقابلہ کریں گے۔ ہم اپنے پیارے نبی ﷺ کی ہدایت کے مطابق زندگی بسر کریں گے تاکہ اللہ کریم اور نبی پاک ﷺ کی خوشنودی حاصل ہو۔
قربانی کا اصل مقصد:
حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے صاحبزادے تھے، حضرت بی بی حاجرہ کے بطنِ پاک سے پیدا ہوئے، بچے ہی تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اُن کو اور اُن کی والدہ کو بنجراور ویران علاقے میں چھوڑ آئے جو اب مکہ مکرمہ کے نام سے مشہور ہے۔ ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اب تم بتاؤ کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیئے لٹایا تو خدا کی طرف سے آواز آئی:
اے ابراہیم (علیہ السلام)! تُو نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا۔ ہم احساس کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں اور ہم نے اس کے لیئے ذبح عظیم کا فدیہ دیا۔
مفسرین کا کہنا ہے کہ اللہ کی طرف سے ایک مینڈھا آگیا جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کیا، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اسی قربانی کی یاد میں ہر سال مسلمان عید الا ضحی مناتے ہیں۔
یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا قربانی صرف جانور کے گلے پر چُھری چلانے کا نام ہے؟ شاید نہیں، بلکہ قربانی کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے نفس اور اپنی غلط خواہشات پر چُھری چلائیں۔ اپنے آپ کو راہِ راست پر لائیں، اگر ہم اپنا چلن تبدیل نہیں کریں گے تو پھر قربانی کے اصل فلسفے تک نہیں پہنچ پائیں گے۔
اللہ پاک ہمیں عید الاضحی کی حقیقی خوشیاں نصیب فرمائے اور ہمیں اپنے آپ کو راہِ راست پر لانے اور اپنا صحیح چلن اپنانے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔